کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ زید کہتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کو پکارنا جائز نہیں اور دلیل کے طور پر یہ آیہ کریمہ پیش کرتا ہے والذين تدعون من دونه ما يملكون من قطمير
اللہ کو چھوڑ کر جن ہستیوں کو تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں مدلل ومفصل مع حوالہ جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں کرم بالائے کرم ہوگا
سائل: محمد امیر رضا
وعلیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہ
الجواب۔اگر پکارنے سے مراد محض پکارنا ہے تو یہ شرعا و عقلا غیر مسلم اور دنیا کا کوئی بھی انسان کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا کہ ہر انسان دوسرے انسان بلکہ غیر انسان تک کو پکارتا ہے اور یہ بات بالکل واضح اور مشاہد ہے۔
اور اگر پکارنے سے مراد مدد کے واسطے پکارنا ہے تو یہ شرعا و عقلا جائز ہے؛
قال اللہ تعالی فی کتابہ الکریم
١-"قال من انصاری الی اللہ قال الحواریون نحن انصار اللہ"
حضرت عیسی علیہ السلام نے غیراللہ کو پکارا اور مدد طلب کی اب اگر غیراللہ کو پکارنا اور مدد ناجائز ہو تو لازم آےگا کہ نبی نے ناجائز کام کیا حالانکہ یہ ان کی شان سے بعید ہے۔
۲-"ان تنصراللہ ینصرکم"
اس آیت میں بے نیاز اللہ نے اپنے دین کی مدد بندوں سے طلب فرمائی اگر غیراللہ سے مدد ناجائز ہو تو رب کریم کی ذات پر الزام ہوگا نعوذ باللہ من ذالک
۳-"لتؤمنن بہ ولتنصراللہ"
میثاق ہی کے دن سے بندوں کو بندے کی مدد کا حکم ہے۔
۴-"واستعینوا بالصبر والصلوۃ"
یہاں بھی غیراللہ سے مدد مانگنے کا واضح حکم رب کی جانب سے ہے۔
۵۔فاللہ مولاہ وجبریل وصالح المومنین والملئکۃ بعد ذالک ظھیرا"
اس میں خود اللہ نے رسول کے مددگاروں کو بیان فرمایا کہ غیراللہ میں کون کون مددگار ہے
۶-"انما ولیکم اللہ ورسولہ والمومنون الذین یؤتون الزکوۃ وھم راکعون"
اس میں مسلمانوں کے مددگاروں کو بیان فرمایا کہ اللہ اور اللہ کے سوا غیراللہ میں کون کون مددگار ہے ۔
٧-"والمؤمنون والمؤمنات بعضھم اولیاء بعض"
اس میں صاف بیان فرمایا کہ مومن مرد و عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔
٨-صحیح مسلم وغیرہ میں ہے "ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺭﺑﻴﻌﺔ ﺑﻦ ﻛﻌﺐ اﻷﺳﻠﻤﻲ ﻗﺎﻝ: ﻛﻨﺖ ﺃﺑﻴﺖ ﻣﻊ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﺄﺗﻴﺘﻪ ﺑﻮﺿﻮﺋﻪ ﻭﺣﺎﺟﺘﻪ ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻲ: ﺳﻞ ﻓﻘﻠﺖ: ﺃﺳﺄﻟﻚ ﻣﺮاﻓﻘﺘﻚ ﻓﻲ اﻟﺠﻨﺔ ﻗﺎﻝ:ﺃﻭ ﻏﻴﺮ ﺫﻟﻚ ﻗﻠﺖ: ﻫﻮ ﺫاﻙ. ﻗﺎﻝ:ﻓﺄﻋﻨﻲ ﻋﻠﻰ ﻧﻔﺴﻚ ﺑﻜﺜﺮﺓ اﻟﺴﺠﻮﺩ"
(مسلم،ج١،ص٣٥٣،)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ القوی شرح مشکوٰۃ شریف میں اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں"از اطلاق سوال کہ فرمود سل بخواہ وتخصیص نکرد بمطلوبی خاص معلوم میشود کہ کارہمہ بدست ہمت و کرامت اوست صلی تعالٰی علیہ وسلم ہرچہ خواہد وہرکرا خواہد باذن پروردگار خود بدہد فان من جودک الدنیا وضرتہاومن علومک علم اللوح والقلم"(اشعۃ اللمعات،کتاب الصلٰوۃ باب السجود وفضلہ، فصل اول،مکتبہ نبویہ رضویہ سکھر،ج١،ص۳۹۶)
اس حدیث پاک کی تشریح میں ملا علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں "ﻭﻳﺆﺧﺬ ﻣﻦ ﺇﻃﻼﻗﻪ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺴﻼﻡ اﻷﻣﺮ ﺑﺎﻟﺴﺆاﻝ ﺃﻥ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻣﻜﻨﻪ ﻣﻦ ﺇﻋﻄﺎء ﻛﻞ ﻣﺎ ﺃﺭاﺩ ﻣﻦ ﺧﺰاﺋﻦ اﻟﺤﻖ،
ﻭﺫﻛﺮ اﺑﻦ ﺳﺒﻊ ﻓﻲ ﺧﺼﺎﺋﺼﻪ ﻭﻏﻴﺮﻩ ﺃﻥ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﺃﻗﻄﻌﻪ ﺃﺭﺽ اﻟﺠﻨﺔ ﻳﻌﻄﻲ ﻣﻨﻬﺎ ﻣﺎ ﺷﺎء ﻟﻤﻦ ﻳﺸﺎء" ملتقطا(ج٢ص٧٢٣،)
مندرجہ بالا آیات کریمہ و حدیث رسول علیہ الصلاۃ والتسلیم اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ غیراللہ کو پکارنا اور ان سے مدد مانگنا جائز ہے جو ناجائز کہے وہ شرع مطہر پر افتراء کرتا ہے؛
معترض کا غیراللہ کو پکارنا اور ان سے مدد مانگنا ناجائز کہنا اور یہ آیت پیش کرنا جہالت ہے اسے دین و قرآن کریم کا بالکل علم نہیں۔
یہ اور اس طرح کی تمام آیات میں من دون اللہ سے مراد بت ہیں جیسا کہ کتب تفاسیر میں مذکور ہے۔
بتوں کے حق میں نازل ہونے والی آیات کو انبیاء اور اولیاء کے حق میں چسپاں کرنا حماقت جہالت تحکم اور نبی دشمنی کا بین ثبوت ہے۔
ایسے خوارج صفت لوگوں کے بارے میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی راے مبارک "وکان ابن عمر یراھم شرار خلق اللہ وقال انھم انطلقوا الی آیات نزلت فی الکفار فجعلوھا علی المومنین"
(الصحیح للبخاری، جلد٢، ص۱۰۲۴)
واللہ تعالی اعلم
کتبہ؛ شان محمد مصباحی قادری
خادم التدریس جامعہ مظہر العلوم
گرسہاۓ گنج قنوج یوپی الہند
0 تبصرے