جہاں ظلم کے سائے گہرے ہو جائیں اور ناانصافی کے بادل چھا جائیں، وہیں سے بغاوت کی شمعیں جلتی ہیں اور حق کی آواز گونجتی ہے۔ سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے لہولہان منظر نے ہمیں یاد دلایا کہ ہم وہ قوم ہیں جن کے ایمان کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑتی۔ یہ وقت ماتم کا نہیں، اپنی صفوں کو از سرِ نو مرتب کرنے اور ظالم کے خلاف یک زبان ہو کر کھڑے ہونے کا ہے۔

"چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر 
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی" 
(علامہ اقبال)

ایک تاریخ جو خون کے چراغوں سے روشن ہے 
سنبھل کی شاہی جامع مسجد، مغلیہ دور کی شان و شوکت کی امین، نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوستانی ثقافت کا اہم حصہ ہے۔ 1529ء میں اس مسجد کی بنیاد رکھی گئی، اور صدیوں تک یہ امن و بھائی چارے کی علامت رہی۔ مگر فرقہ پرست طاقتوں کی سازشوں نے اسے ایک تنازعے کا میدان بنا دیا۔
آج تاریخ کے آئینے میں ہمیں وہ واقعات نظر آتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ جب بھی امت مسلمہ نے اتحاد کا مظاہرہ کیا، وہ اپنے مقدسات کی حفاظت میں کامیاب رہی۔

"وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے کاری"

ظلم کا کھیل: انتظامیہ کی متعصب چالیں 24 نومبر 2024 کا وہ دن، جب سنبھل کی گلیاں خون سے رنگین ہوئیں، کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ عدالت کی عجلت، پولیس کی جانبداری، اور شدت پسندوں کی بے لگام جارحیت نے صاف ظاہر کر دیا کہ یہ حادثہ نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند سازش تھی۔
کیا یہ اتفاق ہے کہ ہندو فریق کی عرضی فوراً قبول کی گئی؟ کیا یہ محض بے دھیانی ہے کہ بغیر عدالتی حکم کے دوسرا سروے کرایا گیا؟ یا یہ امت مسلمہ کے عزم کا امتحان تھا؟

"ستم تو یہ ہے کہ ظالم سکوں سے رہتے ہیں
دعائیں مانگنے والے تڑپ کے مر جاتے ہیں"

وہ ہتھیار جو کبھی زنگ نہیں پکڑتا یہ وقت جذباتی تقاریر یا بے سمت احتجاج کا نہیں بلکہ منظم حکمت عملی اور اتحاد کا ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ جب امت مسلمہ نے فرقوں سے اوپر اٹھ کر خود کو ایک ملت سمجھا، تو ظلم کے پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہو گئے۔
1.قومی یکجہتی: مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر کو ایک پلیٹ فارم پر آ کر اپنے اجتماعی مفادات کے لیے آواز اٹھانی ہوگی۔

"ہم کو مٹاسکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے، زمانے سے ہم نہیں"

2.علمی و قانونی جنگ: ظالموں کو ان کے ہی میدان میں شکست دینے کے لیے ہمیں اپنے علمی و قانونی نظام کو مضبوط بنانا ہوگا۔
3.تعلیمی بیداری: قوم کی ترقی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو جدید علوم کے ساتھ دین کی روشنی سے منور کرنا ہوگا۔

"نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں"

امت کو جگانے کا وقت: مسلمانوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے، وہ اپنی غیرتِ ایمانی کے ذریعے نہ صرف زندہ رہے بلکہ دنیا کی قیادت بھی کی۔ سنبھل کے موجودہ حالات ہمیں اسپین کے ان دنوں کی یاد دلاتے ہیں جب مسجد قرطبہ کو چرچ میں بدلنے کی سازش کی گئی، مگر مسلمانوں کی استقامت نے اسے دوبارہ اسلامی شعائر کا مرکز بنایا۔ 
 
"خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کو اپنا کہوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا"

پیغامِ اتحاد: ایک مقصد، ایک آواز آج سنبھل کی گلیاں صرف مسلمانوں سے نہیں بلکہ ہر انصاف پسند انسان سے سوال کر رہی ہیں:
کیا ہم ظالم کے مقابلے میں خاموش رہیں گے؟
کیا ہم اپنے مقدسات کی حفاظت کے لیے یکجا نہیں ہوں گے؟
کیا ہم اپنی نسلوں کو ظلم کی غلامی میں چھوڑ دیں گے؟
جواب واضح ہونا چاہیے: ہم وہ امت ہیں جو مکہ کے مظالم سہہ کر بھی اپنے حق سے پیچھے نہیں ہٹی۔ ہم وہ قوم ہیں جن کے پاس بدر و حنین کی تاریخ ہے۔ ہم وہ ملت ہیں جن کے خون کا ہر قطرہ ایمان کی گواہی دیتا ہے۔

"یہ غازی، یہ تیرے پراسرار بندے 
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی"

خون کا ہر قطرہ گواہ ہے آج کے حالات ہمیں بیداری اور قربانی کا پیغام دے رہے ہیں۔ یہ وقت اتحاد، حکمت، اور ثابت قدمی کا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ظلم کبھی زیادہ دیر نہیں چلتا اور حق ہمیشہ فتح یاب ہوتا ہے۔ 

"سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے"

سنبھل کی گلیوں سے اٹھنے والی یہ صدا امت مسلمہ کے ضمیر کو جگانے کے لیے کافی ہے۔ آیئے، ہم سب یکجا ہو کر ایمان، اتحاد، اور عمل کی طاقت سے اپنی تقدیر کے روشن باب لکھنے کا آغاز کریں، کہ اللہ کی مدد ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتی ہے جو حق کے لیے ثابت قدم رہتے ہیں؛؛

از قلم : ارمان علی عبیدی نعیمی صدر المدرسین دارالعلوم رضویہ بادشاہیہ تاج پور درگاہ شریف سارن بہار 

جاری کردہ؛ محمد عارف رضوی قادری گونڈوی