کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ شوال کے چھ روزے رکھنے کے لئے یکم شوال کو پہلا روزہ رکھنا ضروری ھے باقی پورے ماہ میں کبھی بھی رکھ سکتے ہیں اس جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا
المستفتی★:-محمد ثاقب رضا نوری (محمد میاں) رضا بک ڈپو مین بازار بلاری ضلع مراد آباد یو پی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب
عید کے بعد شوال کے مہینہ میں چھ روزہ رکھنے والے کے لئے حدیث پاک میں فضیلت آئی ہے ،
امام مسلم نے اپنی مستند و معتمد کتاب میں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے ۔
"عن ابی ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ انہ حدثہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من صام رمضان ثم أتبعہ ستا من شوال کان کصیام الدھر "
(صحیح مسلم کتاب الصیام باب استحباب صوم ستۃ ایام من شوال اتباعا لرمضان حدیث نمبر ۲۷۵۸ )
ترجمہ؛ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر انکے بعد چھ دن روزے شوال میں رکھے تو ایسا ہے جیسا کہ اس نے دہر کا روزہ رکھا ,
اب رہی بات کہ یکم شوال کو تو عید کا دن ہوتا ہے اور عید کے دن روزہ رکھنا مکروہ تحریمی ہے، عید کے دن روزہ رکھنے والا گنہگار ہوگا ،یکم شوال کے بعد دوسری تاریخ سے لیکر پورے مہینہ میں جب چاہے روزہ رکھے جائیں کوئی حرج نہیں .خواہ عید کے بعد ہی دوسری تاریخ کو رکھیں یا اسکے کے بعد رکھیں بہر حال پورے ماہ میں کسی بھی تاریخوں میں چھ روزہ رکھ لیں کوئئ حرج و مضائقہ نہیں خواہ لگاتار رکھیں یا الگ یا الگ بعض حضرات عید کے بعد فورا روزہ رکھنا ضروری سمجھتے ہیں تو یہ انکی غلط فہمی ہے پورے مہینہ کی کسی بھی تاریخ کو روزہ رکھ سکتے ہیں ،
امام ابو الحسن بن عمار الشرنبلالی نے لکھا ہے ۔
" ومنہ صوم ست من شھر شوال لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم من صام رمضان فأتبعہ ستا من شوال کان کصیام الدھر، ثم قیل الافضل وصلھا لظاھر قولہ فأتبعہ وقیل تفریقھا اظھارا لمخالفۃ اھل الکتاب فی التشبیہ با الزیادۃ علی المفروض "
(مراقی الفلاح شرح نور الایضاح کتاب الصوم فصل فی صفۃ الصوم صفحہ 639، 640،، مطبوعہ دار الکتاب دیوبند )
ترجمہ؛ اور انہیں نفلی روزوں میں سے شوال کے چھ روزے ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ماہ شوال میں لگاتار چھ روزہ رکھے تو گویا کہ اس دیر کا روزہ رکھا، پھر ایک قول یہ ہے کہ ان چھ روزوں کا لگاتا رکھنا افضل ہے لفظ فأتبعہ کے ظاہر کی وجہ سے اور ایک قول یہ ہے کہ ان چھ روزوں کو جدا جدا رکھنا افضل ہے اہل کتاب کی مخالفت کی وجہ سے فرض روزوں پر زیادتی کی مشابہت میں ,
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ شوال کے چھ روزے عید کے بعد دوسری تاریخ سے پورے مہینہ خواہ لگاتار رکھیں یا
الگ الگ دونوں طرح سے جائز و درست ہیں ۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ؛ حضرت مولانا محمد ایاز حسین تسلیمی
صاحب قبلہ ساکن۔ محلہ ٹانڈہ متصل مسجد مدار اعظم بہیڑی ضلع بریلی یوپی انڈیا
0 تبصرے