السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا تراویح کی اجرت لے سکتے ھیں
مدلل جواب ارسال فرمائیں۔
سائل۔۔۔ خالد خان بھوپالی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
طے کرکے تراویح کی اجرت لینا دینا دونوں ناجائز ہے، طے تو نہ کرے مگر یہ پتہ ہے کہ وہاں اتنا ملتا ہے جب بھی وہاں تراویح سنانا جائز نہیں،
ہاں اگر طے نہ کیا ہو اور نہ ہی یہ معلوم ہو کہ وہاں اتنا ملتا ہے یا اتنا دیں گے اور ختم تراویح کے دن حدیہ کے طور پر کچھ رقم دے تو اس کا دینا اور امام کا لینا دونوں جائز و درست ہوگا !
حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ ومولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ آج کل اکثر رواج ہو گیا ہے کہ حافظ کو اجرت دیکر تراویح پڑھواتے ہیں یہ ناجائز ہے۔ دینے والا اور لینے والا دونوں گنہگار ہیں، اجرت صرف یہی نہیں ہے پیشتر مقرر کر لیں کہ یہی لیں گے یہ دیں گے، بلکہ اگر معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے ، اگرچہ اس سے طے نہ ہوا ہو یہ بھی ناجائز ہے المعروف کالمشروط ہاں اگر کہہ دے کہ کچھ نہیں دوں گا یا نہیں لوں گا پھر پڑھے اور حافظ کی خدمت کریں تو اس میں حرج نہیں الصریح یفوق الدلالة
(بہار شریعت جلد اول حصہ چہارم صفحہ ٦٩٢، تراویح کا بیان )
(فتاوی مرکز تربیت افتا ج 1 ص 283 تراویح کا بیان)
(احسن الفتاوی المعروف فتاویٰ خلیلیہ ج 2 ص 518)
جواز کی ایک صورت کو اپنائی جا سکتی ہے کہ اگر وہاں لوجہ اللہ تراویح پڑھانے والا کوئی حافظ نہ ملے تو تراویح پڑھانے والے کو ماہ رمضان میں نائب امام بنایا جائے اس کے ذمے ایک یا دو نماز مقرر کردی جائے اور معقول تنخواہ طے کر دی جائے تو اس طرح سے بھی لینا دینا جائز ہوگا اور اگر پہلے سے اسی مسجد میں امامت کرتے ہوں اور تراویح بھی وہی سنائیں گے تو ایسی صورت میں امام صاحب کی تنخواہ بڑھا دی جائے تو جائز ہوگا !
واللہ تعالیٰ ورسولہﷺاعلم بالصواب
کتبہ؛ محمد مدثر جاوید رضوی صاحب قبلہ غفرلہ
مقام۔ دھانگڑھا، بہادر گنج ضلع۔ کشن گنج بہار
0 تبصرے