السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسٔلہ کے بارے میں کے امام کعبہ کے پیچھے نماز ہوسکتی ہے یا نہیں اور جمعہ پڑھ سکتے ہیں کے نہیں؟ 
سائل : محمد اکمل سلطانی پاکستان 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ برکاتہ 
الجواب بعون الملک العزیز الوہاب 
فی زمانہ عرب میں غیر مقلدین و وہابیہ کی حکومت ہے اور غیر مقلدین و وہابیہ علمائے اہل سنت کے نزدیک اپنے عقائد باطلہ و کفریہ کی بنیاد پر کافر و مرتد ہیں جن کی اپنی نماز نماز نہیں ان کے پیچھے کسی دوسرے کی نماز کیا معنیٰ؟ 
لہٰذا امام کعبہ کے پیچھے حکومت کے جبر کی وجہ سے نماز پڑھنا پڑے تو دل کو مطمئن رکھتے ہوئے مصلی کی صورت بنائے رہے اور بعد فراغت نماز دہرائے اس میں جمعہ و غیر جمعہ کی کوئی تخصیص نہیں بلکہ کوئی نماز فی زمانہ امام کعبہ کے پیچھے نہیں ہوگی جمعہ کے دن بھی جمعہ کے بجائے ظہر کی نماز ادا کرے، 
شارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں،، آج کل مسلمانوں کی بدقسمتی سے حجاز مقدس پر نجدیوں کی حکومت ہے نجدی عقائد کے اعتبار سے گمراہ بددین ہیں بلکہ جمہور فقہا کے طور پر کافر، ان کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں صرف یہی مسلمان ہیں ان کے علاوہ دنیا کے سارے مسلمان کافر و مشرک ہیں۔ جیسا کہ دیوبندی کے سابق شیخ الحدیث مولوی جسین احمد ٹانڈوی نے الشہاب الثاقب میں لکھا ہے اور یہ متفق علیہ ہے جو ساری دنیا کو تو بڑی بات ہے کسی ایک مسلمان کو کافر کہے وہ خود کافر ہے۔ جیسا کہ متعد و احادیث اور فقہا کی کثیر عبارتیں اس پر شاہد ہیں اور نماز صحیح ہونے کے لئے ایمان شرط ہے جب ایمان ہی نہیں تو نماز کیسی؟ اس لئے مسلمان کو نجدی کے پیچھے ہرگز ہرگز نہیں پڑھنی چاہیے 
(نزھۃ القاری جلد 3 صفحہ 157)
 واللہ تعالی اعلم بالصواب 

کتبہ؛ محمد ساجد چشتی 
شاہجہانپوری خادم مدرسہ دارارقم محمدیہ میر گنج بریلی شریف