السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
سوال تعزیہ کیا ہے، اور تعزیہ کس لئے بنایا گیا جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی 
سائل؛ سرفراز قادری بنگال 

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
 الجواب بعون الملک والوہاب 
 تعزیہ کی اصل توبس اتنی تھی کہ روضہ امام عالی مقام سید الشہدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نقشہ بنا کر بطور یادگار گھروں میں رکھا جاتا جیسے کہ خانہ کعبہ و روضہ سرکار مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نقشے: جیسے یہ جائز وہ بھی جائز، لیکن اب روضہ امام کے نقشے کے ساتھ طرح طرح کی خرافات نے اس کو ممنوع و ناجائز بنادیا، مثلاً، اس نقشہ روضہ امام کو قبر امام عالی مقام سمجھنا، اس سے مرادیں مانگنا، اس کے سامنے جھکنا، اس کا طواف کرنا، باجے تاشے سے اس کا جلوس نکالنا، ہر سال اسے مصنوعی کربلا لے جاکر مال ضائع کرنا، نوحہ خوانی و سینہ کوبی، اور پھر اب نقشے بھی ایسے بنائے جاتے ہیں جو روضہ امام عالی مقام سے کچھ علاقہ نہیں رکھتے، نئی نئی تراش اور من گڑھت شکلیں بنالی گئی ہیں اور ان کو روضہ امام سے تشبیہ دی جاتی ہے.. اس قسم کی تعزیہ داری ظاہر ہے جوکہ ناجائز ہے، کوئی بھی عقل و ہوش والا اس کے جواز کا قائل نہیں، 
اس لیے سیدی سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمة والرضوان نے بھی اس کو ناجائز کہا ہے؛؛؛ 
اور تعزیہ داری کی ایجاد کے بارے میں، مورخ اسلام اکبر خان نجیب آبادی لکھتے ہیں،: ۳۵۲ھ کے شروع ہونے پر ابن بویہ مذکور نے حکم دیا کہ ۱۰ محرم کو حضرت "امام” حسین کی شہادت کے غم میں تمام دکانیں بند کر دی جائیں، بیع و شراء بالکل موقوف رہے، شہر و دیہات کے لوگ ماتمی لباس پہنیں اور علانیہ نوحہ کریں۔ عورتیں اپنے بال کھولے ہوئے، چہروں کو سیاہ کیے ہوئے، کپڑوں کو پھاڑتے ہوئے سڑکوں اور بازاروں میں مرثیے پڑھتی، منہ نوچتی اور چھاتیاں پیٹتی ہوئی، نکلیں۔ شیعوں نے اس حکم کی بخوشی تعمیل کی مگر اہل سنت دم بخود اور خاموش رہے کیونکہ شیعوں کی حکومت تھی۔ آئندہ سال ۳۵۳ھ میں پھر اسی حکم کا اعادہ کیا گیا اور سنیوں کو بھی اس کی تعمیل کا حکم دیا گیا۔اہل سنت اس ذلت کو برداشت نہ کرسکے چنانچہ شیعہ اور سنیوں میں فساد برپا ہوا اور بہت بڑی خون ریزی ہوئی۔ اس کے بعد شیعوں نے ہر سال اس رسم کو زیر عمل لانا شروع کر دیا اور آج تک اس کا رواج ہندوستان (پاک و ہند) میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہندوستان میں اکثر سنی لوگ بھی تعزیے بناتے ہیں۔اور رکھتے ہیں 
 اللہ کریم ہم سبھی خوش عقیدہ مسلمانوں کو ایسے بدعات و خرافات سے بچائے اور ہمارے دلوں میں آقا حسین رضی اللہ عنہ سے سچی محبت پیدا فرمائے؛؛ 
آمِیۡن ثُمَّ آمِیۡن اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا ثُمَّ آمِیۡنۡ بِجَاهِ النَّبِیِّ الاَمِیۡنِ الۡکَرِیۡم ﷺ
(ماخذ، تاریخ اسلام، تالیف مورخ اسلام اکبر خان نجیب آبادی۔ جلد ۲، ص ۲۹۴، لیک روڈ چوبرچی لاہور)
 واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 
کتبہ؛ محمد عارف رضوی قادری گونڈوی